امن اور روادارمعاشرے کا قیام کیسے ممکن ہے


 امن  اور  روادارمعاشرے کا قیام کیسے ممکن  ہے ۔


امن و  راوادار  معاشرے  کا فروغ  موجودہ وقت کی ایک  اہم  ضرورت  ہے ۔اس نقطے سے ہم  دنیا  کو  امن  کا  گہوارہ  بنا  سکتے ہیں ۔ا
امن اور  راوادار  معاشرے  کے فروغ کیلئے  ہمیں  اسلام  کے  زریں اصولوں  کو  دیکھنا  ہو  گا۔ کیونکہ  اسلام نام  ہی  سلامتی اور  امن  کا ہے۔ اسلام دنیا میں  امن کا پر چار  کرتا ہے  اور  اسی امن    بنا  پر  دنیا میں اسلام  کو دیگر  مذاہب پر برتری حاصل  ہے۔ 
معاشرے  میں امن سے مراد  ہر  بندہ  جو  اس  معاشرے  کا حصہ  ہے  اسے  ترقی  کے  ییکساں مواقع  حاصل  ہوں ۔۔
راواداری سے  مراد  برداشت  اور  حسن  سلوک  کے  ہیں ۔اسلامی معاشرے کی  بنیاد عدل و انصاف ،راواداری اور  حسن  اخلاق  پر  ہے ۔ اسی  بنیاد پر اسلامی معاشرہ  دنیا میں  امن کے  لیے آئیڈیل  ثابت  ہوا ہے ۔
اسلامی  تاریخ میں  پر امن  اور  راوادار معاشرے  کے  
قیام  کے  لیے بہترین  مثالیں موجود ہیں ۔  قرآن پاک  میں ارشاد  رربانی  ہے ۔ترجمہ
جس  نے  ایک جان  کو قتل  کیا  گویا  اس نے پوری  انسا نیت کو قتل  کیا ۔جس nنے  ایک انسانی جان  بچائی  گویا  اس  نے پوری  انسانیت کی جان  بچائی ۔اسلام  نے کتنی خوبصورت  بات  بیان کی  ہے۔ 
 گویا  ایکانسانی  جان  کا  قتل  پوری انسانیت کا  قتل  قرار  دےہے ۔

،دور  حاضر  میں۔ میں انسانیت تفریق  میں  بھٹکی ہی ہے ۔اپنی  قوم کو  لیجیے  کوئی  ہزارہ وال ،پنجابی،، ،  پختون 


،اور  کوئی  کراچی  وال  کا  نعرہ لگا  رہا ہے۔ہمیں پرامن  معاشرے  کے  لیے ایک قوم بننا  پڑے گا ہمیں  قائد اعظم  کے ویژن کو اپنانا ہوگا ۔ہمیں سندھی ،بلوچی پختون،    سے  باھر نکلنا ہو گا ۔ہمیں ایک قوم بننا  ہو گا  اسی  قوم  جو  دنیا میں آئیڈیل  ہو ۔
ہمیں  بحثیت مسلمان  قوم پرامن  معاشرے  کے  لیے اسلامی اصولوں کو  اپنانا ہوگا ۔ تب  جا  کر  ایک  پر امن معاشرہ  تشکیل  پا  سکتا ہے ۔
مسلمان ہونے  کے ناطے سے ہم  پر  یہ  فرض  ہے  کہ ہم معاشرے  میں اسلام  کے  معنی کے  مطابق امن  کے  سفیر بنیں ،امر بلمعروف اور  نہی امنکر کے  عملی  پیکر اور      راوداری  کی عملی  تصویر  ہوں۔اسیا  تب ہی  ممکن ہے  جب معاشرے کا ہر فرد اسلام کو اپنے اوپر نافذ کرے   تو پھر معاشرے میں بدامنی کا سوال ہی پیدا ہوتا ہے ۔جب ہر بندہ اسلام کواپنی  ذات پر  نافذ  کرتا ہے تو  اس طرح  پورے  معاشرے میں اسلام نافذ ہوتا ہے اور پھر بدعنوانی اور کرپشن کا سوال  ہی  پیدا  نہیں  ہوتاانسانیت _تمام قومیں اور تمام مسالک قابل احترام ۔ ہیں کوئی مہذب بھی زات پات،رنگ ونسل اور عقیدہے کے نام پر فساد کی اجازت نہیں . دیتا ۔ سارے مہذب امن اور روشنی کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ایک دوسرے کے لیے برداشت رکھیں ! اپنا کردار ایسا روشن رکھیں کہ دوسرے آپ کے کردار کو دیکھ متاثر ہوں ! ایسے اوصاف اپنائیں جن سے انسانیت میں امن کا پرچار ہو۔۔ ۔
اور یوں  معاشرہ امن  کا گہوارہ بن  جاے گا۔پر امن معاشرہ کے لئے سلامتی اور امن  کا ایک  ہی  راستہ ہے وہ ہے  اسلام  والا  راستہ  جس کو ہم فالو کر کے   امن  کی  چھت  تلے  آ سکتے ہیں ۔جو اسلام کی  راہ  سے باہر نکلے گا  وہ نقصان اٹھاے گا۔  اسلام کے متعین اصول معاشرے میں قیام  امن  کی کسوٹی  ہیں۔ ان  کے  بغیر  معاشرے میں امن  نا  ممکن  ہے۔ 
جب معاشرے کا ہربندہ صیح  مومن  ہو  گا تو مومن ماحول کو یکسر تبدیل کر  ڈالتا  ہے وہ معاشرے میں آئیڈیل  ہوتا ہے  آج ہمیں  آئیڈیل   بننے کی ضرورت ہے۔  آیے پرامن معاشر کے قیام کے لیے   خود کو تبدیل کرنے کا آغاز  کرتے ہیں۔ اور اپنے لیے   لئے وہ اصول اور  راہ   متعین کرتے ہیں جن پر  چل کر دنیا   کو امن کا  گہوارہ بنا  سکتے ہیں ۔پر امن معاشرے کےلئے ہمیں اپنے شاندار اور جاندار ماضی کا مطالعہ کرنا ہو گا ۔ ہمی اپنی نیت اور کردار کا احتساب کرنا ہوگا۔ میرا ایمان ہے جس  دن سے  میری ذات سدھرگئی  ،جس دن  سے  میری ذاتی انا ختم ہو  گی اس  دن  میرا  حکمران نیک نیت اور نیک  سیرت  ہوگا

آج ہمیں ضرورت ہے ذاتی انقلاب کی اپنے نفس کے اپر غالب آنے والے انقلاب کی۔ جس دن میں اور اپنے اوپر انقلاب لے آیا جس  دن میں نے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی اسی دن معاشرے میں امن کا آغاز ہو جائے گا۔ جب معاشرے کا ہر بندہ اپنے اپنی  ذات پر  انقلاب لے آئے گا تو اس دن میرا ایمان یہ کہتا ہے کہ ہر تحریک تحریک  انصاف ہوگی۔ ہر لیگ مسلم لیگ ہوگی۔ہر پارٹی پیپلزپارٹی ہوگی۔ ہر موومنٹ قومی موومنٹ  ہوگی ۔ہر جماعت جماعت اسلامی ہی گی ۔ معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار اسلام کے مطابق ڈھالنا ہو گا ۔اسلام عبادات کم معاملات کی صفائی کا  زیادہ حکم دیتا ہے جب ہر بندہ کے معاملات صاف ہوں گے تو معاشرے میں بدعنوانی اور  کرپشن کیسے ممکن   ہو  گی ؟ معاشرہ امن کا گہوارا ہوگا.حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ہر بند ہ چاہتا ہے  اس کا رب کے ساتھ تعلق  اچھا  ہو  میں جو  مانگوں  مجھے  ملے تو  اسکے لیے  اس  کی مخلوق کے ساتھ تعلق کو اچھا کرنا ہوگا ۔ مخلوق کے ساتھ  حسن  سلوک والا معاملہ معاشرے میں عام کرنا ہوگا۔ معاشرے کے ہر فرد کو چاہے کہ وہ اپنا احتساب خود کریے دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکےکہ شاید یہ میرا ہی قصور ہے ۔اسلام نے کھلے عام منافقوں،بت  پرستوں اور دیگر مذاہب کے ساتھ کھل کر حسن  سلوک والا معاملہ فرمایا ہے۔ آج ہمیں اسی حسن   سلوک ضرورت ہے۔۔ اسلام نے رشتہ  داروں کے حقوق کےعلاوہ معاشرے کے  ہر فرد کے حقوق  بیان فرما کر دنیا میں امن و سکون کی راہ متعین کردی ہیں۔  آج صرف دیر ہے   ا ن پر عمل کی  اگر  عمل  ہوتا ہے تو معاشرے میں سکون ہو گا۔ ماضی میں نظر دوڑآءیں تو طویل اسلامی حکومتوں کی بنیاد کیا تھی ان  حکومتوں میں اسلام کے بنیادی اصول  شامل تھے۔  ۔ مسلمان  حکمرانوں نے رواداری  کی بہترین مثالیں پیش کی ہیں ۔ انہوں  نے مسلم اور غیر مسلم کے حقوق کو ایک نظر سے دیکھاان کے لیے یکساں ترقی مواقع پیدا کیے ۔ عدل و انصاف والا  معاشرہ ہمیشہ پھلتاپھولتا  ہے ۔ آج تک انسان نے اس دنیا میں اپنے بنائے ہوئے قواعدو ضوابط لاگو کرنے کی کوشش کی ہے اس لیے معاشرے میں امن و سکون نہیں ہو پایا۔یہ  رب کی دھرتی ہے اس دھرتی رب کا نظام میں موزوں  ہو  گا ۔آج ہمیں ضرورت اس امر کی ہے بس اپنے آپ کو بدلنے کی اور اسلام کے روشن اور واضح اصولوں کو اپناکر پرامن اور دیانتدار معاشرہ کی تشکیل میں  تعاون کی۔ ۔۔

ازقلم حبیب  رانا

تبصرے

مشہور اشاعتیں