نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں
امت مسلمہ کے عروج و زوال کی کہانی! Muslims Rise and Downsfalls
ہماری عروج و زوال کی کہانی!
Muslims Downsfalls
ہمارے عروج و زوال کے اسباب ۔
ہمارے عروج و زوال کا سفر !
امت مسلمہ مسلسل زوال کا شکار کیوں!
اگر ہم تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو ہمارا ماضی شاندار ،جاندار ،بےباک اور بے مثال نظر آتا ہے ۔ہمارا ماضی تاریخ کے اوراق میں قابل فخر ہے ۔اسلام دین فطرت ہے ۔اسلام نے جو نظام حیات معاشرے کی تشکیل کے لیے دیا ہے وہ عالم انسانیت کیلے ہمیشہ کے امن وسلامتی کا مظہر ،دنیاوی اور .اخروی کامیابی کی ضمانت ہے.
(امت مسلمہ کے عروج و زوال)
۔اس فطرتی نظام حیات اور اصول و ضوابط جس نے عالم انسانیت کو امن و سلامتی ،پیدائش سے موت تک، زندگی کی تمام تر معاشرتی اور معاشی ترقی کی تمام راستوں کی نشاندہی کر دی ہے ۔اس نظام فطرت کو جب دنیا کی جاہل ترین قوم ! وہ قوم جو شراب خوری، قمار بازی، دختر کشی اور معمولی جھگڑے پر کئی سالوں تک لڑائی کا جاری رہنا جیسی عادات والی قوم نے اپنایا اور دنیا پر راج کیا ! اسی فطرتی نظام حیات کے ماننے والوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں اور قوتوں کو زیر کیا! وہ قوتیں اور طاقتیں جو دنیا میں اپنا اثر رکھتی تھی ! ان کے شان و شوکت کو غرور میں ملایا ۔وہ قوم جو کبھی اپنے مسائل اور لڑائیوں سے فارغ نہیں ہوتی تھیں انہوں نے دنیا پر اپنا سکہ بٹھایا! قیصر و کسرٰی بن ہرمز الکوفی کے محلات قبضہ میں آئے ۔امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں 22 لاکھ مربع میل پر نظام .فطرت قائم تھا.
(امت مسلمہ مسلسل زوال کا شکار) کیوں!)
۔یہ دور امن و سکون اور کامیابی کا زینہ تھا ۔جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا امت میں انتشار اور فتنہ و فساد کا شکار ہوتی چلی گئی ۔امت کا نظام فطرت پر عمل پیرا ہونا ڈھیلا پڑتا گیا !غلامی، ناکامی ،مایوسی بڑھتی گئ ۔ عروج زوال میں تبدیل ہوتا چلا گیا !یہاں تفصیل ممکن نہیں !
ہم بحیثت قوم الٹی گنگا میں تیر رہے ہیں ! ہم زوال کے وقت اٹھتے ہیں اور زوال کا کام شروع کرتے ہیں تو ہوتا وہی ہے جو ہم بوتے ہیں ہم زوال کو بوئیں گے تو زوال ہی کاٹیں گے ایسا تو ہو نہیں سکتا زوال بو کر ترقی کا پھل حاصل کریں ۔رب کی سنت کسی کے لیے نہیں بدلتی جو محنت کرے گا وہی کامیاب ہوگا ۔ہمارا طرز زندگی اج بھی وہی ہے جو کبھی لال قلعے والوں کا ہوا کرتا تھا تو سمجھ لیجئے کہ کہ زوال ہمارا مقدر بنتا جا رہا ہے ۔اس قوم کو کسی ایٹم بم سے مارنے کی ضرورت نہیں ہے یہ شکست زدہ قوم زوال کے کھلے اصولوں پر من و عن عمل کر رہی ہے ۔بکریاں رات کو فورا سو جاتی ہیں اور فجر سے پہلے اٹھ جاتی ہیں یہ نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے اسی لیے بکریوں میں برکت ہوتی ہے اور کتے رات بھر بھونکتے رہتے ہیں اور فجر کا وقت قریب ہوتے ہی سو جاتے ہیں اس لیے رحمت اور برکت سے محروم ہوتے ہیں۔ پس غور و فکر کا مقام ہے اج ہمارا یہی حال ہے ہم اپنی راتوں کو فضولیات میں گزارتے ہیں اور صبح بوقت نزول رحمت سو جاتے ہیں اسی وجہ سے آج نہ ہمارے مال میں اور نہ ہی ہماری اولاد میں اور نہ کسی چیز میں برکت ہے ۔دنیا کے مشہور اور بڑے شہروں میں رات اٹھ بجے ہو کا عالم ہوتا ہے صرف بیکریاں ریسٹورنٹ اور ہسپتال کھلے ہوتے ہیں باقی مائدہ عوام جلد سوتے ہیں جلد اٹھتے ہیں صبح جلدی کام شروع کرتے ہیں سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں سورج کے زوال کے وقت کام کاروبار شروع ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں بڑے شہروں میں دن ایک بجے مارکیٹیں کھلتی ہیں اور رات گئے بند ہوتی ہیں ۔پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں
آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں
بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں !
آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہیں ۔
اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو' ناکام رہے گا۔
بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے محبوبؐ رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا سجدے میں پڑے رہے تھے !
حیرت ہے ان حاطب اللیل دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کرسکتا کیا سلطنتِ خدا داد پاکستان اللہ کی رشتہ دار تھی اور کیا سلطنت خداداد میسور اللہ کی دشمن تھی۔۔(ٹیپو سلطان کی سلطنت ).
ہم زوال کے وقت اٹھتے ہیں اور زوال کے وقت کام شروع کرتے ہیں تو ہوتا وہی ہے جو بوتے ہیں ہم زوال کو بوئیں گے تو زوال ہی کاٹیں گے ایسا تو نہیں ہو سکتا زوال بو کر ترقی کا پھل حاصل کریں۔رب کا قانون کسی کیلے نہیں بدلتا جو محنت کرے گا وہی کامیاب ہوگا ۔ہمارا طرز زندگی اج بھی وہی ہے جو کبھی لال قلعے والوں کا ہوا کرتا تھا سمجھ لیجیے کہ زوال ہمارا مقدر بنتا جا رہا ہے ۔اس قوم کو کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں یہ شکست زیادہ قوم زوال کے کھلے اصولوں پر من و عمل کر رہی ہے ۔بکریاں رات کو فورا سو جاتی ہیں اور فجر سے پہلے اٹھ جاتی ہیں یہ نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے اس لیے بکریوں میں برکت ہوتی ہے اور کتے رات بھر بھوکتے رہتے ہیں فجر کے ہوتے ہی وہ سو جاتے ہیں اس لیے رحمت برکت سے محروم ہوتے ۔پس اور فکر کا مقام ہے اج ہمارا یہی حال ہے ہم اپنی راتوں کو فضولیات میں گزار دیتے ہیں اور صبح بوقت نزول رحمت سو جاتے ہیں ۔اسی وجہ سے اج نا ہمارے مال میں نہ ہماری اولاد میں اور نہ ہی کسی دوسری چیز میں برکت ہے۔
۔دنیا کے مشہور اور بڑے شہروں میں رات اٹھ بجے ہو کا عالم ہوتا ہے صرف بیکریاں اور ریستوان کھلے ہوتے ہیں کیونکہ باقی کے لوگ جلد سو جاتے ہیں جلد اٹھتے ہیں صبح جلدی کام شروع کرتے ہیں سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں سورج کے زوال کے وقت کام شروع ہوتا ہے اس وقت ہمارےہاں صبح کا اغاز ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں بڑے شہروں میں زوال کے وقت مارکیٹیں کھلتی ہیں رات گئے بند ہوتی ہیں تو سوچیں ہم اسے ترقی کریں گے ۔زوال کے وقت اٹھنے والے زوال کے وقت کام شروع کرنے والے یہ زوال ہی پاتے ہیں کبھی ترقی ایسا نہیں کر سکتے تو قوم سوچیے ائیے اج سے اپنے اپ کو بدلیے صبح کا اغاز جلدی کیجئے ۔اگر آپ بھی وقت کے سکندر بنا چاہتے ہیں تو سحر خیزی کو اپنے اوپر لازم کر لیں دنیا و آخرت کی ساری کی ساری برکات سحر خیزی میں ہے !
حبیب رانا
۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
Thanks for visit
This platform provides helpful tips for navigating life problems and challenges. Learn strategies for finding solutions, managing stress, and taking care of yourself in difficult times.