ہم جس معاشرہ کا حصہ ہیں ۔یہ معاشرہ معاشرتی مسائل سے بھرا ہوا ہے ۔اب چونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے ۔دنیا کے تمام افراد ایک معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں ۔معاشرے کے باسیوں کو چاہئے کہ اس گلوبل ولیج کرہ ارض کی قدر کریں۔ اس کی فطرتی اور قدرتی حیثیت کو برقرار رکھنے میں ایک دوسرے کے معاونت کریں ۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے دنیا بڑی تباھی کی طرف جا رہی ہے ۔ انگریزی میں کہاوت ہے: "change is the law of nature" یعنی تبدیلی قدرت کا قانون ہے۔ تبدیلی کا لازمی نتیجہ ترقی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں انسان نے ترقی کی ہے۔ ترقی کے نام پر انسان نے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اس نے فطرت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ فطرت پر انسان کی بالادستی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ انسان کی ان غیر انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں بہت سے حیوانات اور نباتات ناپید (extint) ہوچکے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کرۂ ارض کو خیر باد کہنے کے لئے مجبور کی جارہی ہے۔ چڑیوں کا چہچہانا، بھنوروں کا گنگنانا، جھرنوں کے نغمے، کویل کی کوک اور خوبصورت قدکر دیا ہے رتی نظارے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) جسے مختصراً ai کہا جاتا ہے، کے ساتھ مشینی انسانوں کی آمد آمد ہے۔ یہ مشینی انسان ہم سے زیادہ قوی اور ذہین ہونگے لیکن جذبات سے عاری! روبوٹک سائنسداں اپنے اس حسین (خبیث) خواب کی تعبیر آئندہ دو صدیوں میں حاصل کرنے کی امید کررہے ہیں۔ تو کیا آئندہ دو صدیوں میں فطرت بالکل ختم ہوکر رہ جائے گی؟ جس طرح آج انسان نے دوسری ذی روح انواع کا دائرۂ حیات تنگ کررکھا ہے، کیا اسی طرح یہ مشینی انسان ہمارا استحصال کریں گے؟ ہمیں اپنا غلام بنا لیں گے؟ یا پھر اس کرۂ ارض پر قبضہ کرکے نسل انسانی کو ہی ناپید کردیں گے؟ انسان ہمیشہ ہی اس شاخ کو کاٹتا آیا ہے جس پر وہ بیٹھتا ہے۔ اپنے ہی گلے کے لئے تلوار مانگتا آیا ہے ۔ جنگلات کی کٹائی ، حیاتیاتی ایندھن کا جالؤ، صنعتی انقلاب کے بعد ایسی تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں جن سے ہماری معاشرتی زندگیاں بری طرح متاثر ہونے لگیں ہیں ۔ پانی کی سطح میں بتدریج اضافہ،گلیشیرز کا پگھلنا، سیلاب ، طوفان ،لینڈ سالئیڈنگ وغیرہ۔ ہم معاشرتی مسائل کی دلدل میں دھنسے جا رہے ہیں ۔ ہماری دھرتی بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزررہی ہے اور عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔جس کی وجہ سے ہماری زندگی بری طرح متاثرہورہی ہے۔ہماری فصلوں کی پیداوار میں ہر سال واضع کمی ہورہی ہے۔زرعی پیداوار،اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین سیم وتھورکا شکار ہورہی ہے اورزمین کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔ زمین کے ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو نئے معاشرتی مسائل سیلاب اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہمارے معاشرے کو نت نئے معاشرتی مسائل کی طرف لے جا رہے ہیں ۔۔ آج کا مو سم بتا رہا ہے کہ کو ئی سائنسدان یا خطرے کا بگل بجانے والا مدبر نہیں ۔یہ جاننے کی ضرورت بھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہے کیا اور ہمارے ماحول پر یہ کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟ انسان نے فطرت کی آغوش میں آنکھ کھولی ، پھر ترقی کے پیاسوں فطرت کا وجود کاٹ کر شہر و گاؤں بسائے گئے، فطرت کے نظام کو ڈسٹرب کیاجو درجہ حرارت کو بڑھانے کا باعث بن ریا ہے ۔موسم میں شدت اورقطبی برف کا پگھلنا اس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہے ۔زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے نئے معاشرتی مسائل پیدا ہو رے ہیں ۔ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو بدل دے گی۔جس سے پانی کی قلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ موسم میں شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات جیسے گرمی کی لہر بارشیں اور طوفان با ربار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہوجائے گا یہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے لیے خطرہ ہو گی۔ غریب ممالک کے شہریوں کے پاس حالات کے مطابق ڈھلنے کا امکان کم ہوتاہے اس لیے وہ سب سے ذیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ان معاشرتی مسائل کے دنیا پریشان ہے ۔ جس سے ہیومن سوسائٹی تو تحقیر و حدبندی کا سامنا کر ہی رہی ہے ۔ پورے اقتصادی مالیاتی نظام کا اسٹرکچر بھی بیٹھ رہا ہے ۔پھر بعد اس کے پے درپے جنگی ماحول کے اشارے بڑھتے جا رہے ہیں یہ شنید ہے کہ دنیا عمومی حالات سے نکلنے والی ہے اور مالیاتی و اقتصادی عمومی فارمولے کولیپس کے قریب ہیں. بس ہمیں چاہیے کہ ذاتی و مالیاتی امور میں زیادہ منصوبہ بندی اور خواہشات ترک کر دیں، مختلف دینی و دنیوی صلاحیتوں کا کسب کریں ۔خودمختاری کی حقیقی پوزیشن کو حاصل کرنے کی سعی کریں اور مشکل حالات کے لیے خود کو پورے کنبے کو ذہنی طور پر تیار کریں ۔ایک موچی کو ہی دیکھ لیجیے یا مکئ بیچنے والے اور بے انتہا مشقت کرنے والے کو کہ اس میں سروائیول کی کس قدر صلاحیت ہے جب کہ بمقابلہ اس کے اسناد کا بوجھ لادے آفس میں ائیر کنڈیشن تلے اعلیٰ قسم کی جاب کے حامل شخص میں کس قدر صلاحیت ہے۔ بڑی بڑی نوکریوں والے اگر نوکری کھو بیٹھے تو تیز ترین مالیاتی پستی پکڑیں گے اور بڑے بڑے کاروبار والے اگر پھنسے تو نکل ہی نہیں پائیں گے ۔کامیاب شخص وہی ہوگا جو ہر قسم کے حالات کے لیے فہم کو اور اسباب کو تیار رکھے.ان معاشرتی مسائل کے حل کیلئے دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر آنا چاہئے ۔ہم کیا کر سکتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ ہر فرد واحد اپنے حصے کا کام کرے تو ایک دن آئے گا کہ دنیا اس عالمی مسلئے سے آزاد ہو گی ۔دنیا کا ہر فرد اس عالمی مسلئے کا زمہ دار ہے ۔ جب معاشرے کا ہر فرد اس کی اہمیت کو جانے گا تو یہ مسلئہ چند سالوں کا مہمان ہو گا ۔ آیئے میں اور آپ آج سے اپنے آپ سے آغاز کرتے ہیں کہ اپنے حصے کا کام کریں گے ۔اپنی ڈیلی روٹین کی زمہ داریوں کے مطابق اس مسلئے کی روک تھام کیلئے کام کریں گے۔ ہر فرد اپنے اپ سے وعدہ کرے کہ آج سے میں اپنی سرزمین کو ماحولیاتی الودگی سے پاک کرنے کیلئے ہر ممکن کام کروں گا ۔ سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کو کم کریں گے ۔ اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں گے ۔ ہوائی سفر کم کریں گے ۔ گوشت اور دودھ کے استعمال میں کمی کریں۔ فطرتی ماحول کو اپنی فطرتی حیثیت میں برقرار رکھیں گے ۔ فطرتی نظام کے مطابق زندگی گزاریں گے ۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں